حروفِ تہجی سے مراد وہ علامتیں ہیں جنہیں لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر زبانوں میں یہ مختلف آوازوں کی علامات ہیں مگر کچھ زبانوں میں یہ مختلف تصاویر کی صورت میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض ماہرینِ لسانیات کے خیال میں سب سے پہلے سامی النسل یا فونیقی لوگوں نے حروف کو استعمال کیا۔ بعد میں عربی کی شکل میں حروف نے وہ شکل پائی جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ بعض ماہرین ان کی ابتداء کو قدیم مصر سے جوڑتے ہیں۔ اردو میں جو حروف استعمال ہوتے ہیں وہ عربی سے لیے گئے ہیں۔ جنہیں حروف ابجد بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی پرانی عربی ترتیب کچھ یوں ہے۔ ابجد ہوز حطی کلمن سعفص قرشت ثخذ ضظغ۔ انہیں حروفِ ابجد بھی کہتے ہیں۔ علمِ جفر میں ان کے ساتھ کچھ اعداد کو بھی منسلک کیا جاتا ہے۔
اس طریقہ سے اگر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے اعداد شمار کیے جائیں تو786 بنتے ہیں۔ بعض اہلِ علم ہمزہ (‘ ء)’ کو بھی ایک الگ حرف مانتے ہیں۔ اس حساب سے پھر عربی کے انتیس حروفِ تہجی بنتے ہیں۔ اردو زبان میں عربی کے ان حروف کے علاوہ مزید حروف استعمال ہوتے ہیں۔ اردو میں ہمزہ سمیت کل 37 حروف ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ آوازیں حروف کے مجموعے سے بھی ظاہر کی جاتی ہیں مثلاً کھ، بھ وغیرہ۔ اردو میں فن تاریخ گوئی کی صنف موجود ہے جس میں اشعار یا ایک مصرع سے کسی واقعہ کی تاریخ برامد کی جاتی ہے۔ اردو میں حروف کے اعداد حروفِ ابجد جیسے ہی ہیں۔ اضافی حروف کے لیے بھی انہی سے مدد لی جاتی ہے۔ مثلاً ‘پ’ کے اعداد ‘ب’ کے برابر، ‘ڈ’ کے اعداد ‘د’ کے برابر، ‘گ’ کے اعداد ‘ک’ کے برابر اور ‘ے’ کے اعداد ‘ی’ کے برابر شمار کیے جاتے ہیں۔